حد سے زیادہ چھوٹے یا بڑے برتن دھونے میں یا تو ٹکرا کر کناروں سے ٹوٹ جاتے ہیں یا ان کے کنارے بھر جاتے ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں برتن مہمانوں کے سامنے رکھنے کے قابل نہیں رہتے۔
دنیا کے کارخانوں میں بنائی جانے والی مصنوعات کا بڑا حصہ گھر میں استعمال ہونے والی اشیاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ فریج یا کمپیوٹر سے لے کر سوئی دھاگے تک بہت سی اشیاء گھر میں استعمال کیلئے تیار کی جاتی ہیں۔ ان اشیاء میں باورچی خانہ اور اس سے متعلق اشیاء کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ باورچی خانہ‘ گھر کا معروف ترین حصہ ہے اور یہاں استعمال ہونے والی اشیاء میں وہ اشیاء بھی شامل ہیں جنہیں باورچی خانے سے باہر‘ باورچی خانے سے درآمد ہونے والے پکوانوں کونوش کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جی ہاں ہمارا اشارہ کراری (کھانے کیلئے استعمال ہونیو الے برتنوں) کی طرف ہے۔
برتن ضرورت کے ساتھ فیشن بھی:کھانے کیلئے استعمال ہونے والے برتن ویسے تو ضرورت کی شے ہیں لیکن باذوق افراد نے اس ضروری شے میں متعدد اقسام کے حوالے سے اتنا تنوع پیدا کردیا ہے کہ اب یہ برتن ضرورت کے ساتھ ساتھ اسٹائل اور فیشن کا حصہ بھی بن گئے ہیں۔ گھر میں دعوت ہو تو مہمان پکوان سے اٹھنے والی خوشبو سے پہلے دسترخوان یا کھانے کی میز پر قرینے سے سجے برتنوں کے معیار اور اس کی خوبصورتی پر بطور خاص توجہ دیتے ہیں۔ اکثر مہمان خواتین تومیزبان کے اِدھر اُدھر ہونے کا انتظار کرتی رہتی ہیں تاکہ پلیٹوں اور گلاسوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ سکیں اور اس دیدہ زیب برتن بنانیوالی کمپنی سے متعلق معلومات حاصل کرسکیں اور اس طرح ان کا دسترخوان بھی ایسے یا ان سے بھی بہتر برتنوں سے سج جائے۔
گھر میں استعمال ہونے والے برتن یا کراکری مختلف ناموں اور مختلف قسموں کی ہوتی ہے۔ یہ کراری پاکستان سمیت دنیا بھرمیں تیار کی جاتی ہیں۔ اس بارے میں اصل مسئلہ بہت ہی چمکتے اور جدید تراش خراش سے مزین برتنوں میں سے اپنے لیے موزوں ترین برتن کے انتخاب کا ہوتا ہے۔
کراکری منتخب کرتے وقت سب سے پہلے ضرورت اور پھر بجٹ کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے برتنوں کی اقسام اور مقدار کا خیال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ڈنر سیٹ خریدنا چاہیں تو اس کیلئے بازاروں میں چینی‘ ماربل‘ شیشہ‘ میلامائن‘ کرسٹل‘ پلاسٹک وغیرہ کے ڈھیروں برتن موجود ہیں۔ یہ برتن پاکستان کے ساتھ ساتھ اٹلی‘ ترکی‘ فرانس‘ انڈونیشیا‘ تھائی لینڈ‘ کوریا‘ تائیوان اور چائنہ جیسے ممالک میں تیار کیے جارہے ہیں اور ہمارے ہاں ان کا استعمال بالکل عام ہے۔
اقسام کی تفریق سے ایک ڈنر سیٹ ہزار پانچ سوسے لے کر پچاس ہزار روپے تک کا ملتا ہے جنہیں لوگ اپنے ذوق کے مطابق خریدتے ہیں لیکن بعض اوقات یہ قیمتیں اس سے بھی زیادہ ہوجاتی ہیں۔ آج کل چونکہ یہ ظروف فیشن کا حصہ بھی ہیں اور دیگر فیشن کی طرح ان برتنوں کا بھی مخصوص فیشن آتا جاتا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ اب آہستہ آہستہ خواتین میں یہ سوچ فروغ پارہی ہے کہ وہ ایک ہی طرح کا ڈنر سیٹ خریدنے کے بجائے یہ برتن علیحدہ اور تھوڑے تھوڑے خرید لیتی ہیں۔ اس طرح ان کا بجٹ بھی قابو میں رہتا ہے اور ان کی ضروریات بھی وقتاً فوقتاً پوری ہوتی رہتی ہیں۔
کرارکری خریدنے میں جلدبازی نہ کریں:کراکری خریدتے وقت سمجھدار خواتین کبھی جلد بازی سے کام نہیں لیتی ہیں کیونکہ یہ بہرحال ایسی ہی چیز ہے کہ جسے پائیدار ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ضرورت سے زیادہ بھاری برتن بھی آج کل فیشن میں نہیں۔ برتنوں کا وزن اتنا ہوکہ اسے باآسانی اٹھایا جاسکے اور آرام سے کھانا کھایا جاسکے۔ عام استعمال اور عورتوں میں استعمال ہونے والے برتن مختلف اقسام کے ہوتے ہیں اور ان کے انتخاب میں قیمتوں کے فرق کا بھی بطور خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ عام استعمال کے برتن مہمانوںکے سامنے رکھنا مہمانداری کے اصولوں کے خلاف سمجھا جاتا ہے اسی لیے خواتین اپنے گھر میں کچھ خاص برتنوں کو رکھنا ضروری سمجھتی ہیں۔آج کھانے کے برتن بہت سے رنگوں میں دستیاب ہی نہیں بلکہ نئی نئی کمپنیاں بہت جلد مزید کئی رنگوں کے امتزاج سے ان برتنوں کو سجانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ فی الحال سفید کراکری کے علاوہ کئی خوبصورت گہرے اور ہلکے رنگ استعمال کیے جارہے ہیں ۔
عام استعمال کے برتن جتنے نازک ہوں گے اتنی ہی جلدی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اسی لیے برتنوں کے کناروں کی موٹائی دیکھ بھال کر ہی برتن خریدے جائیں تو بہتر ہے۔ جہاں تک برتنوں کے سائز کا معاملہ ہے تو ایسے میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس کا سائز استعمال میں آسان ہو ساتھ ہی اسے دھونا اور سنبھالنا بھی آسان ہو۔
حد سے زیادہ چھوٹے یا بڑے برتن دھونے میں یا تو ٹکرا کر کناروں سے ٹوٹ جاتے ہیں یا ان کے کنارے بھر جاتے ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں برتن مہمانوں کے سامنے رکھنے کے قابل نہیں رہتے۔ چنانچہ پلیٹیں اکثر درمیانی موٹائی کی خریدنی چاہئیں جن کے کنارے اچھی طرح ہموار کیے جاچکے ہوں۔ گلاس بھی زیادہ موٹے نہیں خریدے جاتے کیونکہ ایسے گلاس پکڑنا مشکل ہوتا ہے اور ایسے میں یہ گلاس گر کر ٹوٹ سکتے ہیں۔ پانی پینے کیلئے گلاس نسبتاً لمبا خریدا جاتا ہے اور مشروب کیلئے درمیانہ یا چھوٹا۔ اس کے علاوہ یہ خیال بھی رکھا جاتا ہے کہ اس کے ڈیزائن میں زیادہ کٹ اور تراش خراش نہ ہوئی ہو۔ بہت زیادہ تراش خراش والے برتنوں کے کنارے صحیح طرح ہموار نہیں ہوپاتے۔ نیز ان کی بہتر طریقے سے صفائی بھی ممکن نہیں ہوتی۔ ان کے کٹس میں میل پھنس جاتی ہے اور گلاس دھلے ہوئے ہونے کے باوجود صاف نہیں لگتے۔
کھانے کے برتنوں کے ساتھ اگر کٹلری (چمچے‘ چھری‘ کانٹے وغیرہ) کا ذکر نہ کیا جائے تو بات ادھوری رہے گی‘ کٹلری عام طور پر دھات سے بنتی ہے جس پر بعد میں پالش یا کروم کیا جاتا ہے۔ چمچوں کے کنارے جتنے ہموار ہوں گے چمچے اتنے ہی دیدہ زیب نظر آئیں گے۔ پاکستان میں تیار کی جانے والی کٹلری اعلیٰ معیار کی ہے اور زیادہ تر یہی چمچے اور کانٹے پورے ملک میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
ہر خاتو ن خانہ کی خواہش:ہر خاتون چاہتی ہے کہ دسترخوان یا کھانے کی میز پر اس کی تعریف ہو۔ لوگ اس کے ہاتھ کے ذائقے کے ساتھ ساتھ اس کے ذوق کی بھی داد دیں۔ ’’داد دینے والوں‘‘ میں اس خاتون کا شوہر یا گھر کا سرپرست بھی شامل ہو کہ جس کی جیب سے نکلنے والے پیسے‘ برتنوں کی خریداری میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بجٹ میں رہتے ہوئے ان برتنوں کی خریداری خواتین کے ذوق کے ساتھ ساتھ ان کی ذہانت کا امتحان ہے۔آج بازار میں موجود بہت سی دلکش اقسام نے اس امتحان میں کامیاب ہونا نسبتاً آسان بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر گھر میں خواتین برتنوں کی بہتر رینج جمع کرنے میں خوبصورتی سے کامیاب ہوجاتی ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں